کوئی بھی انسان فطری طور پر بُرا نہیں ہوتا بلکہ وہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے گردوپیش کا ماحول اس کی سوچ کا رُخ اچھائی یا برائی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ انسان کے کردار پر اچھا یا برا اثر ڈالنے میں تین چیزوں کا کردار انتھائی اہمیت کا حامل ہے۔


تہذیب وثقافت اور معاشرے میں پائے جانے والے دیگر اقدار۔

تعلیمی ادارے۔

والدین۔

آئیے ان تینوں عوامل کا جائزہ لیں۔ سب سے پہلے ہم معاشرہ اور اس میں پائے جانے والے اقدار کا جائزہ لیتے ہیں۔



تہذیب وثقافت اور معاشرے میں پائے جانے والے دیگر اقدار۔


ہمارا معاشرہ اخلاقی برائیوں کی ایسی آماجگاہ بن چکا ہے جس میں ہر طرف ظلمت کا بسیرا نظر آتا ہے بے حیائی کا مہلک مرض، ظلم و جبر، اقرِبا پروری، رشتوں کے تقدس کی پامالی،حقوق اللہ اور حقوق العباد سے ناواقفیت،اوہام پرستی، جہالت پرمبنی عقائد و نظریات،لسانیت کی بنیاد پر امت مسلمہ کی تقسیم۔نہ جانے کتنی طویل فہرست ہے ان معاشرتی برائیوں کی جو ہمارے معاشرے میں ایسے گردش کررہی ہیں جیسے جسم میں خون اور افسوس در افسوس کہ ان برائیوں کو اب برائی نہیں سمجھا جاتا بلکہ کبھی ثقافت کبھی روشن خیالی تو کبھی آزادئ اظہارِ رائے کا نام دیا جاتا ہے تو کوئی اسے اپنے حقوق کی جنگ قرار دیتا یے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک شریف النفس انسان ایسے آلودہ اور تعفن زدہ ماحول میں اپنا اور اپنی اولاد کا جینا بہت دشوار محسوس کرتا ہے۔


تعلیمی ادارے۔


ابتدائی تعلیم سےلیکر اعلی تعلیم تک کے تمام ادارے انسان کی زندگی کے ہر لمحہ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نیک سیرت اساتذہ، اچھا تعلیمی نصاب، بہتر طریقہ تعلیم اور اساتذہ کی دی ہوئی عمدہ تربیت اگر کسی کو میسر آجائے تو وہ شخص نہ صرف بذاتِ خود اعلی اخلاقی معیار کو پہنچ جاتا ہے بلکہ وہ تنہا انسان اپنے گھر سے لیکر معاشرہ تک اور ملک و قوم سے لیکر ملت تک سب کے لئے باعثِ صد افتخار ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات عمدہ تربیت کا حامل انسان آئندہ نسلوں کا رہنما بن جاتا ہے اور تاریخ میں اس کا نام درخشاں ستارے کی طرح چمکتا رہتا ہے۔ مگر افسوس دورِ حاضر کے تعلیمی اداروں کے حال کی ابتری کیفیت الامان الامان۔ تعلیمی ادارے! جہاں ایک سادہ کاغذ کی مثل ذہن لے کر آنے والا بچہ مغربی تعلیم سے تیار کردہ نصاب پڑھتا ہے۔ قرآن و سنت کے نور سے دور اساتذہ کی دی ہوئی تربیت اور یورپی کلچر سے متاثرایسی فضا جس میں برائی کو تہذیب و تمدن بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ادب و تعظیم کی حدود پار کرنے کا نام روشن خیالی رکھ دیا جاتا ہے۔ایسی زہر آلود فضا میں جب کسی کا لختِ جگر وقت گزارے تو اس کے سادہ سے ذہن پر غیر محسوس انداز میں برائی کے نقش و نگار اس طرح ثبت ہوجاتے ہیں جن کا اثر مٹائے نہیں مٹتا اور یہ اثرات اس کے کردار کی پاکیزگی کو دیمک کی طرح چاٹتے رہتے ہیں۔ جیسے جیسے طالبِ علم ابتدائی تعلیمی اداروں سے اعلی تعلیم کی طرف جاتا ہے اتنا ہی برائیوں کے دلدل میں اس کا ذہن دھنستا چلا جاتا ہے اور پھر یہی نوجوان جس نے لاکھوں روپے اپنے والدیں سے خرچ کروا کر اپنی زندگی کا قیمتی ترین وقت ان اداروں میں گزارا ایسی آزاد رَوش اپنانے کی سوچ لے کر نکلتا ہے کہ جس میں مادر پدر آزادی حلال و حرام کی تمیز سے مبرہ بے حیائی کی ہر نوع اور نفس کی خواہش کے لئے سب کچھ کر گزرنا اور صرف اپنی ذات کی بقاء اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ اس کے حواس ہوں یا اس کا وجود اس کے افکار ہوں یا اس کے نظریات کہیں اسلام کا نور نظر نہیں آتا۔ یہ جگر پارہ نہ تو والدین کے لئے دنیا و آ‎خرت میں تسکین کا باعث، نہ ہی ملک وقوم کے لئے کچھ کرنے والا۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ غلط تعلیم وتربیت زہر قاتل کی صورت میں وجود کے اندر سرائیت کر جانے کی وجہ سے یہ جسمانی طور پر زندہ تو ہے مگر روحانی طور پر مردہ ہوچکا ہے۔


والدین۔


وہ عظیم ہستیاں جن کے دلوں میں اولاد کے لئے شفقتوں کے ایسے سمندر ہوتے ہیں کہ جن کی کوئی تہہ نظر نہیں آتی۔ اولاد کی پیدائش سے قبل ہی اپنی ساری زندگی کی متاع اس پر وار دینے کا جذبہ والدین کے لئے کچھ معنی نہیں رکھتا اور جب اولاد مل جائے تو چاہتوں بھری آغوش میں لے کر اس کے روشن مستقبل کے سپنے دیکھنا تو ماں باپ کی فطرت ہوا کرتی ہے۔ والدین اپنی اولاد کو کچھ یوں دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہو، اچھے عہدوں پر فائز بھی، آسودہ زندگی گزارے میں معاون ہو اور ایسی عمدہ تربیت پائے کہ ہمارے لئے یہ تسکینِ دل ہو، کرم کے بازو بچھائے اور ہمارے بڑھاپے کو غم اور محتاجی کے دل خراش لمحات سے بچا لے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ نہ صرف ہمارے لئے بلکہ پورے خاندان اور ملک وقوم کے لئے باعثِ افتخار ہو۔ بحیثیتِ مسلمان! والدین ان خواہشات کے ساتھ یہ تمنا و آرزو بھی رکھتے ہیں کہ زندگی کے مشکل لمحات سے لیکرقبر تک اور قبر کی زندگی سے آخرت کی تمام منازل میں یہ اولاد ہمارے لئے ثوابِ جاریہ ہو، دعا کے لئے ہاتھ بلند کرنے والی بھی ہو اور بخشش کا سامان بھی۔ مگر افسوس ان مقدس آرزؤں اور چاہتوں کا وجود تو اسی وقت زخمی ہوجاتا ہے جب والدین اپنی اولاد کے لئے تعلیمی اداروں کا انتخاب کرتے ہیں مغربی بے راہ روی پر مبنی نصاب اور اس سے متاثرہ اساتذہ اور تعلیمی اداروں سے تربیت پانے والی اولاد اسی دلدل میں دھنس چکی ہوتی ہے جس کا ذکر ابھی ہوا اور جب ماں باپ اپنے ہی ہاتھوں اپنی دنیوی اور اُخروی زندگی کا عظیم نقصان دیکھنے ہیں تو کفِ افسوس ملنے کے سوا اب کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس پوری کیفیت پر نظر کریں تو والدین ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں سے منزل کا تعین مشکل ہوگیا۔عجب کشمکش کا شکار ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نہ بھیجیں تو ترقی کا حصول کیونکر ممکن ہو اور اگر داخل کردیں تو اپنے ہی ہاتھوں اپنی کمائی کو آگ لگ جائے گی۔


Any Query or Complain?